Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط نمبر # ٦


 پر افسوس وہ گولی بھی اس گدھے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔'

 آئی-سی-یو سے باہر آتے ہوئے ڈاکٹر کی تپتی آواز پر سب نے مڑ کر دیکھا اور سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایک ڈاکٹر نے پائیز  کو گردن سے دبوچا ہوا تھا اور پائیز  صاحب  آنکھوں میں شرارت سموئے، ڈھیٹوں کی طرح مسکرائے جا رہے تھے، جبکہ دوسرا ڈاکٹر ہنستے ہوئے باہر نکل رہا تھا۔

' بھائی  یہ کیا نمونہ ہے آپ کا لخت جگر۔' دوسرے ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ اور کوئی نہیں بلکہ طائل غازیان  تھے۔ مجتبٰی غازیان  کے سب سے چھوٹے بھائی اور عریش کے والد۔

' پاپا یہ سب۔۔۔' شارق نے بات آدھی ہی چھوڑ دی۔

' کچھ نہیں ہوا اس گدھے کو ٹھیک ٹھاک ہے۔' پہلے ڈاکٹر یعنی کہ سہیر غازیان  نے پائیز  کو ہلکا سا دھکا دیتے ہوئے کہا۔

' پائیز! ایسا کون کرتا ہے؟ جان نکال دی تھی ہم سب کی۔' دائم نے آگے بڑھ کر پائیز  کو گلے لگایا۔

' منحوس انسان یہ سب کیا تھا۔ زرا بھی اندازہ ہے کس قدر پریشان کیا ہے تم نے؟' ہمیشہ سے سیز فائر کروانے والا آج خود فائر بنا  سنائے جا  رہا تھا اور جس کو سنانی چاہیے تھی وہ بالکل خاموش تھا۔

مجتبٰی غازیان  پائیز  کی طرف آئے اور بنا کچھ کہے گلے لگا لیا۔ آج پہلی بار ان کے یوں گلے لگانے پر پائیز  کی نظریں شرمندگی سے جھگ گئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے والی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ دل پر ایک انجانا سا بوجھ آ پڑا۔ کیونکہ آج سے پہلے پائیز  نے کبھی بھی انھیں  اتنا شکست خوردہ نہیں دیکھا تھا۔

' آئی ایم سوری ڈیڈی۔' پائیز  نے سرگوشی میں کہا۔

مجتبٰی غازیان  اس کا  کندھے تھپک کر پیچھے ہو گئے۔ پائیز  نے عریش  کی طرف  دیکھا جو اسے اس طرح اگنور کر رہا تھا جیسے وہ یہاں ہے ہی نہیں۔  یہ دیکھ کر پائیز  کہ چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ 

' اوہووو ۔۔۔ تو مجھے اگنور کیا جا رہا ہے۔'

کوئی جواب نہ پا کر پائیز  نے کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

' مسٹر پائیز مجتبٰی  کیا آپ بتانا پسند کریں گے، یہ سب کیا تھا؟' شارق نے دانت پیستے ہوئے کہا، ورنہ بس نہیں چل رہا تھا کہ پائیز  کا گلا دبا دے۔

' یار تانی  کو تو سرپرائز دے دیتے، لیکن باقی سب کو بھی تو دینا تھا نا۔ بس اسی لیے تم دونوں کو اندر بھیج کر میں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن لی اور ساتھ ہی بلڈ بیگ بھی لگا لیا۔ پھر جو ہوا وہ سب میرا پلین تھا۔' پائیز  نے فخر سے اپنا کارنامہ بیان کیا، تب ہی گردن پر پڑنے والے ہاتھ نے  اسے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔

' اور گدھا ایکٹ تو ایسے کر رہا تھا جیسے سچ مچ کی گولی لگی ہے۔' طائل غازیان  نے ہنستے ہوئے کہا۔

' میری روٹھی محبوبہ، دیکھ مجھے منانا نہیں آتا پلیز مان جا نا یارررر۔۔' جب عریش  کا اگنور کرنا برداشت نہ ہوا تو پائیز  بول پڑا۔ 

عریش  نے سرخ ہوتی  آنکھوں سے پائیز  کو دیکھا اور بنا کچھ کہے  وہاں سے چلا گیا اور پائیز ۔ وہ اپنی جگہ حیران رہ گیا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ عریش  بنا کچھ کہے یوں ہی چلا گیا تھا۔ ورنہ ہر بار تنگ کرنے پر وہ بہت شور مچاتا تھا۔ پائیز ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا جلدی سے عریش  کے پیچھے بھاگا۔

' عریش ۔۔۔ یار رک میری بات تو سن۔۔۔' پائیز  بھاگتے ہوئے اسے  آواز بھی دے رہا تھا۔ بل آخر پارکنگ  میں  پائیز  نے اسے  پکڑ لیا لیکن عریش  نے پائیز  کا ہاتھ جھٹک دیا۔

' خبردار پائیز !' عریش  دھاڑا۔

' تم خود کو سمجھتے کیا ہو؟ تمھیں زرا بھی اندازہ ہے ہم سب پر کیا گزر رہی تھی؟ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ہم سب کا بنتا۔ ایک دفعہ بھی نہیں سوچا  اس سب کا تانی پر کیا اثر ہو گا؟؟  لیکن نہیں مسڑ  پائیز  یہ سب کیوں کر سوچیں گے۔ ان کے نزدیک ان کا یہ سو کالڈ سرپرائز ہم سب کے جذبات سے زیادہ قیمتی ہے۔'

زندگی میں پہلی بار عریش  یوں چلا رہا تھا۔ وجہ وہ تکلیف تھی جو  اسے اپنے سے ملی تھی، اور اپنوں سے ملا درد انسان کو روح  تک گھائل کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے، انسان کی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اسی جگہ وار کرتے ہیں جہاں تکلیف سب سے زیادہ ہو۔ یہ درد یہ تکلیف کبھی صرف  وقتی اذیت  دیتی ہے تو کبھی عمر بھر کا روگ دے جاتی ہے۔ یوں کہ اس کے چنگل سے نکلنا  برہنہ پیر دھکتے کوئلوں چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ انسان تڑپتا رہتا ہے لیکن اذیت کم نہیں ہوتی۔۔۔

' اچھا بس نا اب بچے کی جان لو گے کیا۔' پائیز  نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تو عریش  روتے ہوئے پائیز  کے گلے لگ گیا۔

' مم میں بہت ڈر گیا تھا۔ مم میری گن سے تجھے گولی لگی تھی۔ اگر خدا نخواستہ تمھیں کچھ ہو جاتا تو میرا کیا بنتا۔' عریش  نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

'مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔' پائیز  نے آہستہ سے کہا۔ آج اس کی لاپروائی والی عادت نے اسے کہاں لا کھڑا کیا تھا۔ وہ پائیز مجتبیٰ جس نے کبھی کسی کی  پروا نہیں کی تھی، آج عریش کے ری ایکشن  نے اسے بے چین کر دیا تھا۔

' پرامس کرو آئندہ ایسا نہیں کرو گے۔' عریش نے روتے ہوئے کہا۔

' پرامس۔' پائیز کا دل دُکھا تھا عریش کو یوں دیکھ کر۔

'واہ واہ۔ لگے رہو تم دونوں آپس میں۔' شارق کی جلی بھنی آواز پر دونوں ہنستے ہوئے الگ ہوئے۔

' یار کیا ہو گیا ہے۔' پائیز کے لیے دونوں کا رویہ سمجھ سے باہر  تھا۔ جہاں ہمیشہ سے کول ڈاؤن رہنے والا تپا ہوا تھا تو وہیں ہر وقت چڑنے والا اب خاموش سا تھا۔

' یہ سوال اگر تم خود سے پوچھو تو بہتر ہوگا۔' شارق نے منہ پُھلاتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ پائیز کچھ کہتا، اُس کا موبائل بجنے لگا۔ 

' یس پائیز مجتبٰی اسپیکنگ!'

دوسری طرف سے کچھ کہا گیا جس کے جواب میں پائیز نے تھوڑی دیر تک آنے کا کہہ کر فون رکھ دیا۔ تب ہی مجتبٰی غازیان اور باقی سب ان کی طرف آتے دکھائی دیے۔

' جلدی کریں وقت نہیں ہے، کیک بھی لیتے ہوئے جانا ہے۔' پائیز یہ کہہ کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

' بھائی آپی کو کال کر کہ ریڈی رہنے کا کہہ دیں۔ چاچو آپ مِنہا چچی (عریش کی والدہ) اور  اسمارہ خالہ (شارق کی والدہ جو پائیز کی خالہ بھی تھیں) کو لے کر ویلہ پہنچیں۔'

دائم نے سر ہلاتے ہوئے اقراء کو کال کی اور ساری صورتحال بتا کر  تیار رہنے کا کہا۔ جبکہ مجتبٰی غازیان، طائل غازیان اور سہیر غازیان  گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ 

دائم باقی سب کو لے کر بیکری چلا گیا۔ وہاں سے کیک اور ڈیکوریشن کا کچھ سامان خرید کر وہ غازیان ویلہ روانہ ہو گئے۔

پانچ منٹ کم بارہ پر  سب پہنچ گئے۔ پائیز آتے ہی غزالہ بیگم کی طرف بڑھ گیا۔ جبکہ باقی سب ڈیکوریشن کرنے گارڈن کی طرف بڑھ گئے۔

' میرا بیٹا!' غزالہ بیگم روتے ہوئے پائیز سے لپٹ گئیں۔

' ایسا کون کرتا ہے پائیز ۔' منہا چچی نے روتے ہوئے شکوہ کیا۔

' تمہیں پتا ہے ہم کتنے پریشان ہو گئے تھے-' اسمارہ خالہ نے بھی روتے ہوئے پائیز کا سر چوما۔

' آئی ایم سوری۔'  پائیز کا مزاق اسے کافی مہنگا پڑا تھا۔

' دوبارہ اگر ایسی کوئی حرکت کی نہ تو دماغ درست کر دوں گی تمھارا۔' اقراء نے پائیز کے سر پر چت لگاتے ہوئے کہا تو وہ پھیکا سا مسکرا دیا۔

' تانی کہا ہے۔' پائیز نے گھڑی کو دیکھتے ہوئے کہا جس کے مطابق بارہ بجنے میں اب صرف دو منٹ رہتے تھے۔

' اپنے کمرے میں ہے۔ '

' ٹھیک ہے میں اسے لے کر آتا ہوں آپ سب ریڈی رہیں۔' پائیز کہتے  ہوئے تانیہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔

پائیز نے ہلکے سے کمرے کا دروازہ نوک کیا۔ کوئی جواب نہ ملنے پر وہ خاموشی سے اندر چلا گیا۔ تانیہ  جائےِنماز پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی۔ پائیز بنا کوئی آواز پیدا کیے تانیہ  کے پاس بیٹھ گیا۔ تانیہ  کی پلکیں گیلی تھیں، جس کا مطلب وہ روتے ہوئے سوئی تھی۔ پائیز کو افسوس ہوا۔ اپنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے جس پر بارہ بج چکے تھے پائیز نے مسکراتے ہوئے  کان میں کہا۔

' ہیپی برتھڈے مائے پرنسز!'

 تانیہ نے آہستہ سے آنکھیں کھول کر غائب دماغی سے پائیز کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔

' پائیز بھائی۔' تانی  نے پائیز  کے چہرے کو ہاتھ لگ کر تصدیق کرنی چاہی۔

' جی میری جان میں ہی ہوں۔' پائیز نے تانیہ کے ہاتھ چومتے ہوئے کہا تو وہ روتے ہوئے پائیز کے گلے لگ گئی۔

' بھائی آپ ٹھیک ہیں نا آپ کو کچھ ہوا تو نہیں، میں بہت ڈر گئی تھی بھائی۔ میں نے آپ کو بہت مس کیا۔ میری پچھلی تین برتھڈے پر بھی آپ نہیں آئے تھے۔' تانیہ  روتے ہوئے مسلسل بولے جا رہی تھی جبکہ پائیز  اسے تھپکتے ہوئے سارے شکوے سُن رہا تھا۔

' اب میں آگیا ہوں نا، اپنی پرنسز کی ساری شکایتیں دور کر دوں گا۔ اب آؤ باہر سب ویٹ کر رہے ہیں۔' تانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے پائیز اُسے باہر لے آیا۔

' سرپرائز۔۔۔ ہپی برتھڈے تانیہ۔'

ان کے باہر آنے پر سب نے ایک ساتھ وش کی۔ تانی نم آنکھوں سے مسکرا دی۔ غزالہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسے  پیار کیا۔ اسمارہ بیگم اور منہا بیگم نے بھی تانی کو پیار کرتے ہوئے دُعا دی۔

' ہم سے بھی مل لو بیٹا جی ہم بھی آئے ہیں۔' طائل غازیان   نے تانی  کو چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ ہنستی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔

' اللہ میری گڑیا کو بہت ساری کامیابیوں سے نوازے۔'

' ہپی برتھڈے پرنسز۔' سہیر غازیان  نے بھی پیار کرتے ہوئے وش کی۔

' تھینک یوں  چاچو۔'  تانی  مسکراتے ہوئے مجتبٰی غازیان کے پاس چلی گئی۔

' کتنی جلدی بڑی ہوگئی میری گڑیا۔' مجتبی  غازیان نے تانی  کو پُرشفقت نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

' چلو کیوٹی، اب کیک کٹ کرتے ہیں۔' شارق  یہ کہتے ہوئے تانیہ  کو کیک کی طرف لے گیا۔ خوشیوں بھرے ماحول میں تانیہ کی برتھڈے سیلبرٹ ہوئی۔ کیک کٹنے کے بعد سب بڑے اندر جبکہ اقراء، دائم ، شارق ، عریش ، پائیز  اور تانیہ سب وہیں گارڈن میں رُک گئے۔

' عیش میرا گفٹ۔' تانیہ  نے عریش  کے آگے اپنا ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔

' عیش کی کوئین آپ کا گفٹ آپ کو صبح مل جائے گا اور ابھی کے لیے یہ رکھو۔' عریش  تانیہ  کے ہاتھ پر چاکلیٹ اور خوبصورت سا لال گلاب رکھتے ہوئے پیار سے بولا۔

' صبح کب؟ مجھے ابھی چاہیئے۔ کہیں آپ بھول تو نہیں گئے۔' تانی  نے منہ بسورتے ہوئے روٹھے لہجے میں کہا۔

' کیا میں بھول سکتا ہوں۔' بھنویں اچکا کر پوچھا گیا۔

تانیہ بچپن سے ہی پائیز اور دائم کے بعد سب سے زیادہ  عریش سے مانوس تھی۔ عریش کو بھی تانیہ بہت عزیز تھی کیونکہ اسے  بھی تانیہ کے روپ میں  ایک چھوٹی سی گڑیا مل گئی تھی۔ عریش  تانیہ کی ہر چیز کا خیال رکھتا تھا تو  چار سال کی عمر میں  تانیہ نے سب سے پہلا نام بھی  عیش یعنی عریش کا ہی لیا تھا۔  تانیہ ہر بار سب سے پہلا گفٹ عریش سے ہی لیتی تھی۔

' تانی  بچے اس کو چھوڑو اور آپ مجھ سے اپنا گفٹ لو۔' شارق نے کہہ کر ایک بڑا سا ڈبہ تانیہ  کی طرف بڑھایا۔

' اتنا بڑا گفٹ! اس میں کیا ہے۔'  وہ  آنکھوں میں چمک لیے گفٹ کھولتے ہوئے بولی۔ 

وہ سفید رنگ کا ایک بڑا سا بھالو تھا۔ جو کچھ مہینے پہلے تانی نے آن لائن دیکھا تھا لیکن خرید نہیں سکی تھی۔ کیونکہ وہ لمیٹڈ سٹاک تھا۔

' بھائی یہ تو!'

' جی بالکل یہ وہی ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میری گڑیا کو کوئی چیز پسند آئے اور وہ لے نہ سکے؟' شارق  نے مسکراتے ہوئے کہا۔

' تھینک یوں نہیں بولوں گی۔' تانیہ نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔

' میں سنوں گا بھی نہیں۔' شارق نے اسے  گلے لگاتے ہوئے کہا۔

تانیہ  صرف مجتبٰی  غازیان کی ہی نہیں بلکہ پورے  خاندان کی اکلوتی اور چہیتی تھی کیوں کہ غازیان  خاندان میں صرف لڑکے ہی لڑکے تھے۔ طائل   غازیان  کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا عثمان جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دوبئی میں ہوتا تھا اور دوسرا تھا عریش ۔ سہیر  غازیان کا ایک ہی بیٹا تھا شارق ۔ اسی وجہ سے تانیہ خاندان میں اکلوتی لڑکی ہونے کی وجہ سے  سب کو بہت عزیز تھی۔

' دائم  بھائی، آپی میرا گفٹ!' بھالو کو گود میں بیٹھا کر تانیہ  نے اپنا رُخ اقراء اور دائم کی طرف کیا۔

' یہ لو میری جان۔' دائم نے عاشو کو گفٹ دیا۔

' ہممم۔۔۔ لگتا ہے اس میں بھی کوئی زبردست گفٹ ہونا ہے۔ '

تانیہ  نے گفٹ کھولا تو اس میں مشہور برانڈ مائیکل کورس کی خوبصورت سی لیڈیز واچ  اور نیل آرٹ کِٹ تھی۔

' بھائی۔۔۔ آپی۔۔۔' تانیہ نے  نم آنکھوں سے دائم اور اقراء کو دیکھا تو وہ مُسکرا دیے۔

' پائیز  بھائی میرا  گفٹ! ' اب تانیہ  آرام سے بیٹھے پائیز  کی برف متوجہ ہوئی۔

' میرا آنا کیا کسی گفٹ سے کم ہے کیا؟ '

' نہیں بالکل بھی نہیں۔  لیکن گفٹ پر تو میں پھر بھی لوں گی۔' تانیہ  نے شانِ بےنیازی سے کہا۔

' مجھے پتا تھا۔ اسی لیے میں نے گفٹ پہلے سے ہی خریدا ہوا تھا۔' پائیز  نے کہتے ہوئے سُنہرے رنگ کا پنجرا  تانی کو دیا جس میں ایک خوبصورت سا پرندہ تھا۔

' بھائی ی ی ی ی۔۔۔۔ یہ کتنا پیارا ہے۔' تانیہ  نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا جبکہ باقی سب اسے  خوش دیکھ کر مُسکرا دیئے۔

' چلو بچوں رات کے دو بج رہے ہیں۔ اب سو جاؤ۔' منہا چچی نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

' جی چچی جان۔ میں بھی بہت تھک گیا ہوں۔' پائیز  نے کرسی کی ٹوہ پر سر ٹکاتے ہوئے کہا۔

' ہاں بچارے نے اتنی ٹینشن دی ہے سب کو۔ تھکاوٹ تو ہونی ہی ہے۔' شارق نے طنز کیا تو  پائیز بند آنکھوں سے مسکرا دیا۔

' میرا بچہ! ' منہا چچی  نے شارق کو گھورتے ہوئے  پائیز  کا سر چُوما۔

' کچھ کھاؤ گے؟ ' اقراء نے اُٹھتے ہوئے پوچھا۔

' نہیں آپی بس سوؤں گا۔ گڈ نائٹ ایوری ون۔'

 ' گڈ نائٹ۔' شارق  اور عریش  بھی پائیز  کے کمرے میں سونے کو چلے گئے۔ 

***************

اذان کی آواز پر وہ آنکھیں ملتی اٹھ بیٹھی۔  سر پر دوپٹہ ڈال کر  اذان کا جواب دیا۔ اذان کے ختم ہوتے ہی وہ واشروم چلی گئی۔ جب وہ باہر نکلی تو چہرے پر موجود ننھے ننھے پانی کے قطرے اس کے باوضو ہونے کے گواہ تھے۔ سائد ٹیبل سے موبائل اُٹھایا اور کسی کو کال ملائی۔ بیل جا رہی تھی۔ کچھ دیر  بعد نیند میں ڈوبی آواز آئی۔

 ' ہیلو! ' 

' اسلام علیکم پشوگے! اٹھ جاو، نماز پڑھ لو۔' مسکراتے ہوئے کہا گیا۔

' ہاں اُٹھ گئی ہوں۔ تم نے پڑھی۔' دوسری طرف سے شارمین نے پوچھا۔

' نہیں بس ابھی پڑھتی ہوں۔' 

' اوکے جاو۔ اللہ حافظ۔' 

' اللہ حافظ۔' مسکراتے ہوئے فون رکھ کر ونیسہ نماز پڑھنے چلی گئ۔

احمد زمان کی تین بیٹیاں تھی۔ بڑی بیٹی ایمان احمد جو شادی شُدہ تھی اور اپنے شوہر حیدر کے ساتھ اسلام آباد میں رہتی تھی۔ پھر تھی ونیسہ احمد۔ وہ بھی bs کی اسٹوڈنٹ تھی۔ صاف رنگت اور ہنی براون آنکھوں والی وہ  بہت شوخ  و چنچل سی لڑکی تھی جس کا پسندیدہ مشغلہ شارمین  کو تنگ کرنا اور ہر وہ کام کرنا جس سے شارمین  کو چِڑ ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ دونوں یک جاں دو قلب تھے۔ ایک دوسرے کے بِنا ان کا گزارا ممکن نہیں تھا۔ ایک دوسرے کو نماز  کے لیے اُٹھا ان کی عادت تھی۔

ونیسہ  کے بعد تھی مہرماہ احمد۔ جو چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ مہرماہ 3 کلاس میں تھی۔

ونیسہ  نماز سے فارغ ہو کر جائےِنماز پر بیٹھی اپنے رب سے رازونیاز میں مشغول تھی۔

' اللہ جی! میں آپ کی بہت عاجز بندی ہوں۔ مجھے کبھی بھی میرے حال پر نہ چھوڑیں۔ میں آپ کی شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے سامنے حاضر ہونے کی توفیق دی۔ یا اللہ میں اپنے ان خوابوں سے بہت پریشان ہوں۔ میرے حال پر رحم فرمائیں۔'

یہ کہتے ہوئے ونیسہ  نے منہ پر ہاتھ پھیرے اور جائےِنماز اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دی۔ 

' پتہ نہیں ان خوابوں کا کیا مطلب ہو گا۔' ونیسہ نے خود سے سرگوشی کی۔

'چلو تلاوت کر لیتی ہوں کہ تھوڑا سکون آ جائے۔' ونیسہ نے قرآن پاک لیا اور سورہٌ یٰسۤ کی تلاوت شروع کر دی۔

***************  

دوسری طرف شارمین بھی نماز پڑھ چکی تھی اور اب اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی پریشانی بیان کر رہی تھی۔

' اللہ جی یہ مما کو اچانک سے میری شادی کہاں سے یاد آ گئی۔ مجھے ابھی تو کسی صورت نہیں کرنی۔ پلیز آپ کچھ کریں۔ ابھی تو میں چھوٹی سی ہوں۔'

آخر میں معصومیت کے ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرتے وہ ہنس پڑی۔ جائےِنماز کو اس کی جگہ پر رکھ کر شارمین نسرین بیگم کی طرف چلی گئی۔ نسرین بیگم ابھی نماز پڑھ رہی تھیں تو وہ  انتظار کی غرض سے اپنے گھر کے چھوٹے مگر خوبصورت باغ میں آ گئی۔ صبح کی تازہ ہوا نے اسے پُرسکون کر دیا۔ 

ایک گہری سانس بھرتے ہوئے وہ باغیچے میں لگے جھولے پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کہ دُرود شریف کا ورد کرنے لگی۔ کچھ ماحول کا اثر تھا اورکچھ ذکرِ پاک کا، کہ شارمین  کی آنکھ لگ گئی۔

***************

' عیشا۔۔ عیشا اٹھو یہاں کیوں سُو رہی ہو؟ ' فہد نے سوئی ہوئی شارمین کو جگاتے ہوئے کہا۔

' ہاں۔۔۔ کیا ہوا ہے۔ ' شارمین آنکھیں ملتی اُٹھ بیٹھی۔

' یونی نہیں جانا کیا۔'

' کیوں کیا ٹائم کیا ہو رہا ہے۔' 

' تمہیں  نہیں پتا؟  آٹھ بج رہے ہیں۔' فہد نے جیسے بڑے پتے کی بات بتائی۔

' کیاااااااا۔۔۔۔ میں اتنی دیر کیسے سُو گئی۔۔۔ ہائےےےے ابھی وین بھی آ جائے گی اور کھٹروس انکل نے ہارن بجا بجا کر جان نکال دینی ہے۔'  شارمین تیز تیز بولتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگی اور پندرہ منٹ میں تیار ہو کر نیچے آئی۔

 ' مما میں لیٹ ہو گئی ہوں جلدی سے چائے کا کپ دیں وین آتی ہی ہو گی۔۔۔'

شارمین بیگ میں لینچ ڈالتے ہوئے نسرین بیگم سے مخاطب تھی۔ جبکہ فہد سر جھکائے مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں سُرخ ہو رہا تھا۔

' آرام سے شارمین ابھی ٹائم ہے وین کے آنے میں۔' بیٹی کی پُھرتی دیکھتے ہوئے نسرین بیگم نے ٹوک دیا۔

' نہیں ہے مما بلکل بھی نہیں ہے۔۔ آٹھ بج گئے ہیں۔ میں لیٹ ہو جاؤں گی۔' شارمین نے کھڑے کھڑے چائے کا کپ لیا اور پینے لگی۔

' کس نے کہا کہ آٹھ بجے ہیں؟ ابھی تو ساڑھے سات ہیں۔' نسرین بیگم نے فہد کے سامنے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا۔

 شارمین کا مُنہ کو جاتا ہاتھ رُک گیا۔ بے یقینی سے پہلے نسرین بیگم کو دیکھا پھر فہد کو جو سر نیچے کیے ہنسنے کا شُغل فرما رہا تھا۔ لمحہ لگا تھا اسے یہ سمجھنے میں کہ اُسے اچھا خاصا بےوقوف بنایا گیا تھا۔

' فہدددددددد۔۔۔۔۔'

شارمین نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا اور فہد کے پیچھے بھاگی جو پہلے ہی خطرہ محسوس کرتے نو دو گیارہ ہو گیا تھا جبکہ نسرین بیگم سِر پکڑ کر رہ گئیں۔

' آج تم مجھ سے بچ کے دکھاؤ۔ میں تمہیں گنجا کر دوں گی فہدددد۔'

شارمین نے بھاگتے ہوئے کہا۔

' پہلے پکڑ تو لو۔' فہد ہنستے ہوئے بھاگ رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتے عابر اعظم سے ٹکرا گیا۔

' آرام سے۔۔۔ کیا کر رہے ہو فہد۔ ابھی گِر جاتے۔'

' پاپا جانی اس کو پکڑ کے رکھیں۔' شارمین بھاگتے ان دونوں کی طرف آئی۔

' ہاں بچو! اب بولو۔ تمہیں شرم نہیں آتی؟' شارمین  نے فہد کا کان مڑوڑتے ہوئے مصنوعی غصّے سے کہا۔

' آیییییییی۔۔۔۔ اچھا سوری نہ۔۔ میرا کان تو چھوڑو۔۔۔' فہد نے فوراً ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔

' کیوں پھر کیا کیا ہے اس نے۔' عابر اعظم بھی فہد کو گھورتے ہوئے بولے۔

' پاپا جانی آپ کی بنی بنائی بےوقوف بیٹی کو مزید بےوقوف بنایا ہے میں نے۔' فہد نے اپنا کان چُھڑواتے ہوئے شرارت سے کہا۔

' پاپا جانی دیکھیں اس کو۔' شارمین نے مُنہ بسورتے ہوئے شکایت لگائی۔ 

' باز آ جاو لڑکے۔ پٹو گے میرے ہاتھوں۔'  فہد کے سر پر چِت لگاتے عابر اعظم شارمین  کو لے کر ٹیبل پر آ گئے جہاں نسرین بیگم اُن کا ناشتہ لگا رہی تھیں۔

فہد بھی ہنستے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور ناشتہ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد شارمین  کی وین آ ئی تو وہ چلی گئی اور فہد بھی اپنی سکول بس کے لیے نکل گیا۔ 

*****************

باقی ان شاءاللہ پھر کبھی!

   6
1 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 03:58 PM

ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوبصورت👌👌

Reply